پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاناما دستاویزات کے بارے میں وزیراعظم نواز شریف
سمیت چھ افراد کی نااہلی سے متعلق درخواستوں کی سماعت مکمل کرتے ہوئے
فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ یہ ایسا مقدمہ نہیں جس کا
مختصر فیصلہ سنایا جائے۔ جمعرات کو سماعت میں جواب الجواب مکمل ہونے کے بعد
عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا ہے تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ فیصلہ کب سنایا
جائے گا۔ سماعت مکمل ہونے کے بعد بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت
آئین اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے ان درخواستوں پر فیصلہ دے گی اور اس
بات سے عدالت کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملک کے کروڑوں لوگ ان کے فیصلے سے
خوش ہوتے ہیں یا نہ خوش۔ اُنھوں نے کہا کہ عدالت کے سامنے یہ پہلا مقدمہ
نہیں ہے مستقبل میں بھی ایسے مقدمات سامنے آئیں گے اس لیے عدالت ایسا فیصلہ
دینا چاہتی ہے کہ 20سال کے بعد بھی لوگ یہ کہیں کہ فیصلہ انصاف پر مبنی
تھا۔ اس سے قبل حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری
نے جواب الجواب میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے اپنی تقاریر میں
غلط بیانی سے کام لیا ہے اس لیے عدالت اُن کی نااہلی کا ڈکلریشن دے۔ اُنھوں
نے کہا کہ اس سے پہلے عدالت یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دے چکی ہے۔ ان
درخواستوں کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے اس پانچ رکنی بینچ میں شامل
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کے مقدمے کو
ان درخواستوں کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نے
عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا تھا اس
لیے اُن کے خلاف کارروائی کی
گئی۔ بینچ میں موجود جسٹس عظمت سعید نے پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا
کہ جو دستاویز آپ نے جمع کروائی ہیں اور کیا اس کی تصدیق کروائی گئی ہے جس
پر نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ اس کی تصدیق تو نہیں کروائی گئی لیکن مخالف
فریق نے اس سے انکار نہیں کیا۔ بینچ میں موجود جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا
کہ غیر تصدیق شدہ دستاویز کو کیسے ریکارڈ کا حصہ بنا لیں۔ بینچ کے سربراہ
جسٹس آصف سعید کھوسہ نےاپنے ریمارکس میں کہا کہ پاناما لیکس میں دی گئی
دستاویزات اتنی زیادہ ہیں کہ انھیں پڑھنے اور رائے قائم کرنے میں وقت لگے
گا۔ عدالت کے مطابق فریقین نے 26000 کے قریب دستاویزات جمع کروائی ہیں اور
اگر ان کو قانون شہادت کے تحت دیکھیں تو ان میں سے 99 اعشاریہ نو فیصد ردی
کی ٹوکری کے لیے ہیں۔ عدالت کی طرف سے مزید سوال پوچھنے کے ڈر سے نعیم
بخاری نے اپنے جواب تحریری طور پر جمع کروا دیے۔ جماعت اسلامی کے وکیل
توفیق آصف اور شیخ رشید نے بھی جواب الجواب میں اپنے دلائل دیے۔ گذشتہ سال
پاناما پیپرز کے نام سے شائع ہونے والی دستاویز میں پاکستانی وزیراعظم کے
اہل خانہ کا نام سامنے آتے ہی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے شریف
خاندان پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے انھیں اقتدار سے الگ کرنے کے لیے
مہم کا آغاز کیا تھا۔ اسی سلسلے میں انہوں نے سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز
شریف کی نااہلی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ 26 صفحات پر مشتمل اس درخواست
میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے تینوں بچوں سمیت کل دس لوگوں کو
مدعاعلیہان قرار دیا گیا تھا۔